وہ ایک خیمۂ شب جس کا نام دنیا تھا
وہ ایک خیمۂ شب جس کا نام دنیا تھا
کبھی دھواں تو کبھی چاندنی سا لگتا تھا
ہماری آگ بھی تاپی ہمیں بجھا بھی دیا
جہاں پڑاؤ کیا تھا عجیب صحرا تھا
ہوا میں میری انا بھیگتی رہی ورنہ
میں آشیانے میں برسات کاٹ سکتا تھا
جو آسمان بھی ٹوٹا گرا مری چھت پر
مرے مکاں سے کسی بد دعا کا رشتہ تھا
تم آ گئے ہو خدا کا ثبوت ہے یہ بھی
قسم خدا کی ابھی میں نے تم کو سوچا تھا
زمیں پہ ٹوٹ کے کیسے گرا غرور اس کا
ابھی ابھی تو اسے آسماں پہ دیکھا تھا
بھنور لپیٹ کے نیچے اتر گیا شاید
ابھی وہ شام سے پہلے ندی پہ بیٹھا تھا
میں شاخ زرد کے ماتم میں رہ گیا قیصرؔ
خزاں کا زہر شجر کی جڑوں میں پھیلا تھا
- کتاب : Agar Darya Mila Hota (Pg. 48)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.