وحشت کے ساتھ دشت مری جان چاہیئے
وحشت کے ساتھ دشت مری جان چاہیئے
اس عیش کے لیے سر و سامان چاہیئے
کچھ عشق کے نصاب میں کمزور ہم بھی ہیں
کچھ پرچۂ سوال بھی آسان چاہیئے
تجھ کو سپردگی میں سمٹنا بھی ہے ضرور
سچا ہے کاروبار تو نقصان چاہیئے
اب تک کس انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں لوگ
امید کے لیے کوئی امکان چاہیئے
ہوگا یہاں نہ دست و گریباں کا فیصلہ
اس کے لیے تو حشر کا میدان چاہیئے
آخر ہے اعتبار تماشا بھی کوئی چیز
انسان تھوڑی دیر کو حیران چاہیئے
جاری ہیں پائے شوق کی ایذا رسانیاں
اب کچھ نہیں تو سیر بیابان چاہیئے
سب شاعراں خریدۂ دربار ہو گئے
یہ واقعہ تو داخل دیوان چاہیئے
ملک سخن میں یوں نہیں آنے کا انقلاب
دو چار بار نون کا اعلان چاہیئے
اپنا بھی مدتوں سے ہے رقعہ لگا ہوا
بلقیس شاعری کو سلیمان چاہیئے
- کتاب : ہوشیاری دل نادان بہت کرتا ہے (Pg. 54)
- Author :عرفان صدیقی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2023)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.