تمہارے پاس رہیں ہم تو موت بھی کیا ہے
تمہارے پاس رہیں ہم تو موت بھی کیا ہے
مگر جو دور کٹے تم سے زندگی کیا ہے
جب اٹھ کے چل دیئے تم تیرگی امڈ آئی
جو تم نہ ہو تو چراغوں کی روشنی کیا ہے
کچھ ایسے پھول بھی گزرے ہیں میری نظروں سے
جو کھل کے بھی نہ سمجھ پائے زندگی کیا ہے
بس ان کی یاد کے ہم پاؤں چوم لیتے ہیں
ہمیں خبر نہیں معراج بندگی کیا ہے
کبھی جو گوش بر آواز ہو کے اس کو سنو
تمہیں پتہ بھی چلے ساز خامشی کیا ہے
مری نگاہ نے کیا کیا نہ خواب دیکھے ہیں
تری نگاہ نے اک بات سی کہی کیا ہے
ہمیں نے ظلمت ہستی میں دل جلائے ہیں
یہ ہم سمجھتے ہیں درمان تیرگی کیا ہے
ابھر رہی ہے جو رہ رہ کے دل کی دھڑکن میں
وہ آرزو ہے کہ ہے اس کی بے بسی کیا ہے
خزاں نصیب ہوں نظریں جو اہل گلشن کی
تو پھر بہار کے جلووں کی تازگی کیا ہے
جہاں میں یہ کبھی مجبور ہے کبھی مختار
ہے ایک شعبدہ آزادؔ آدمی کیا ہے
- کتاب : Dasht-e-Sada (Pg. 119)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.