ترے خیال سے لو دے اٹھی ہے تنہائی
ترے خیال سے لو دے اٹھی ہے تنہائی
شب فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی
تو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی
انہیں بھی دیکھ جنہیں راستے میں نیند آئی
پکار اے جرس کاروان صبح طرب
بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں تیرے سودائی
ٹھہر گئے ہیں سر راہ خاک اڑانے کو
مسافروں کو نہ چھیڑ اے ہوائے صحرائی
رہ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لیے
یہ اور بات تری آرزو نہ راس آئی
یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا
کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی
دل فسردہ میں پھر دھڑکنوں کا شور اٹھا
یہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئی
میں سوتے سوتے کئی بار چونک چونک پڑا
تمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئی
جہاں بھی تھا کوئی فتنہ تڑپ کے جاگ اٹھا
تمام ہوش تھی مستی میں تیری انگڑائی
کھلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی سماں دیکھا
وہ لوگ تھے نہ وہ جلسے نہ شہر رعنائی
وہ تاب درد وہ سودائے انتظار کہاں
انہی کے ساتھ گئی طاقت شکیبائی
پھر اس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصرؔ
بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رسوائی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.