ہم نے جب کوئی بھی دروازہ کھلا پایا ہے
ہم نے جب کوئی بھی دروازہ کھلا پایا ہے
کتنی گزری ہوئی باتوں کا خیال آیا ہے
قافلہ درد کا ٹھہرے گا کہاں ہم سفرو
کوئی منزل ہے نہ بستی نہ کہیں سایا ہے
ایک سہما ہوا سنسان گلی کا نکڑ
شہر کی بھیڑ میں اکثر مجھے یاد آیا ہے
یوں لیے پھرتا ہوں ٹوٹے ہوئے خوابوں کی صلیب
اب یہی جیسے مری زیست کا سرمایہ ہے
شہر میں ایک بھی آوارہ نہیں اب کے برس
موسم لالہ و گل کیسی خبر لایا ہے
ان کی ٹوٹی ہوئی دیوار کا سایہ آزرؔ
دھوپ میں کیوں مرے ہم راہ چلا آیا ہے
- کتاب : Dhoop Ka Dareecha (Pg. 25)
- Author : Kafeel Aazar Amrohi
- مطبع : S. F. Printers Delhi (1993)
- اشاعت : 1993
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.