بت بھی اس میں رہتے تھے دل یار کا بھی کاشانہ تھا
بت بھی اس میں رہتے تھے دل یار کا بھی کاشانہ تھا
ایک طرف کعبے کے جلوے ایک طرف بت خانہ تھا
دلبر ہیں اب دل کے مالک یہ بھی ایک زمانہ ہے
دل والے کہلاتے تھے ہم وہ بھی ایک زمانہ تھا
پھول نہ تھے آرائش تھی اس مست ادا کی آمد پر
ہاتھ میں ڈالی ڈالی کے ایک ہلکا سا پیمانہ تھا
ہوش نہ تھا بے ہوشی تھی بے ہوشی میں پھر ہوش کہاں
یاد رہی خاموشی تھی جو بھول گئے افسانہ تھا
دل میں وصل کے ارماں بھی تھے اور ملال فرقت بھی
آبادی کی آبادی ویرانے کا ویرانہ تھا
اف رے باد جوش جوانی آنکھ نہ ان کی اٹھتی تھی
مستانہ ہر ایک ادا تھی ہر عشوہ مستانہ تھا
شمع کے جلوے بھی یارب کیا خواب تھا جلنے والوں کا
صبح جو دیکھا محفل میں پروانہ ہی پروانہ تھا
دیکھ کے وہ تصویر مری کچھ کھوئے ہوئے سے کہتے ہیں
ہاں ہاں یاد تو آتا ہے اس شکل کا اک دیوانہ تھا
غیر کا شکوہ کیوں کر رہتا دل میں جب امیدیں تھیں
اپنا پھر بھی اپنا تھا بیگانہ پھر بیگانہ تھا
بیدمؔ اس انداز سے کل یوں ہم نے کہی اپنی بیتی
ہر ایک نے سمجھا محفل میں یہ میرا ہی افسانہ تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.