تپتے صحراؤں کی سوغات لیے بیٹھا ہے
تپتے صحراؤں کی سوغات لیے بیٹھا ہے
پیاسی آنکھوں میں وہ برسات لیے بیٹھا ہے
چند مسلے ہوئے صفحات لیے بیٹھا ہے
گھر کا بوڑھا جو روایات لیے بیٹھا ہے
عمر ہی تیری گزر جائے گی ان کے حل میں
تیرا بچہ جو سوالات لیے بیٹھا ہے
زلف شب رنگ پہ رنگین کشیدہ آنچل
وہ کوئی تاروں بھری رات لیے بیٹھا ہے
تو بہادر ہے مگر ہیچ ہے اس کے آگے
ایک بزدل جو تری بات لیے بیٹھا ہے
کیسے کہہ دوں کہ اسے جینے کا حق ہے حامدؔ
دل میں جو لاشۂ جذبات لیے بیٹھا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.