تن تنہا مقابل ہو رہا ہوں میں ہزاروں سے
تن تنہا مقابل ہو رہا ہوں میں ہزاروں سے
حسینوں سے رقیبوں سے غموں سے غم گساروں سے
انہیں میں چھین کر لایا ہوں کتنے دعوے داروں سے
شفق سے چاندنی راتوں سے پھولوں سے ستاروں سے
سنے کوئی تو اب بھی روشنی آواز دیتی ہے
پہاڑوں سے گپھاؤں سے بیابانوں سے غاروں سے
ہمارے داغ دل زخم جگر کچھ ملتے جلتے ہیں
گلوں سے گل رخوں سے مہ وشوں سے ماہ پاروں سے
کبھی ہوتا نہیں محسوس وہ یوں قتل کرتے ہیں
نگاہوں سے کنکھیوں سے اداؤں سے اشاروں سے
ہمیشہ ایک پیاسی روح کی آواز آتی ہے
کنوؤں سے پنگھٹوں سے ندیوں سے آبشاروں سے
نہ آئے پر نہ آئے وہ انہیں کیا کیا خبر بھیجی
لفافوں سے خطوں سے دکھ بھرے پرچوں سے تاروں سے
زمانے میں کبھی بھی قسمتیں بدلا نہیں کرتیں
امیدوں سے بھروسوں سے دلاسوں سے سہاروں سے
وہ دن بھی ہائے کیا دن تھے جب اپنا بھی تعلق تھا
دشہرے سے دوالی سے بسنتوں سے بہاروں سے
کبھی پتھر کے دل اے کیفؔ پگھلے ہیں نہ پگھلیں گے
مناجاتوں سے فریادوں سے چیخوں سے پکاروں سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.