صبح امید کی اک شمع جلائی گئی تھی
صبح امید کی اک شمع جلائی گئی تھی
اس طرح مملکت جسم بچائی گئی تھی
کتنا بے فیض زمانہ تھا کہ خواہش میری
گوشۂ دل میں تڑپتی ہوئی پائی گئی تھی
مدتوں تجھ پہ لٹاتا رہا میں دولت دل
جو کسی اور کے حصے کی کمائی گئی تھی
دیکھنے والوں کی آنکھوں میں اتر آتی تھی
ایک تصویر جو کاغذ پہ بنائی گئی تھی
میرے ماتھے پہ ابھر آتے تھے وحشت کے نقوش
میری مٹی کسی صحرا سے اٹھائی گئی تھی
مجھ سے مت پوچھ شب شہر جنوں کا قصہ
خواب آتے نہیں تھے نیند اڑائی گئی تھی
چشم حیرت نے وہ دنیا بھی تو دیکھی ہے جہاں
پیاس دریاؤں کی صحرا سے بجھائی گئی تھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.