شکوہ نہ چاہیئے کہ تقاضا نہ چاہیئے
شکوہ نہ چاہیئے کہ تقاضا نہ چاہیئے
جب جان پر بنی ہو تو کیا کیا نہ چاہیئے
ساقی تری نگاہ کو پہچانتا ہوں میں
مجھ سے فریب ساغر و مینا نہ چاہیئے
یہ آستان یار ہے صحن حرم نہیں
جب رکھ دیا ہے سر تو اٹھانا نہ چاہیئے
خود آپ اپنی آگ میں جلنے کا لطف ہے
اہل تپش کو آتش سینا نہ چاہیئے
کیا کم ہیں ذوق دید کی جلوہ فرازیاں
آنکھوں کو انتظار تماشا نہ چاہیئے
وہ بارگاہ حسن ادب کا مقام ہے
جز درد و اشتیاق تقاضا نہ چاہیئے
تیغ ادا میں اس کے ہے اک روح تازگی
ہم کشتگان شوق کو مر جانا چاہیئے
ہستی کے آب و رنگ کی تعبیر کچھ تو ہو
مجھ کو فقط یہ خواب زلیخا نہ چاہیئے
اس کے سوا تو معنئ مجنوں بھی کچھ نہیں
ایسا بھی ربط صورت لیلیٰ نہ چاہیئے
ٹھہرے اگر تو منزل مقصود پھر کہاں
ساغر بکف گرے تو سنبھلنا نہ چاہیئے
اک جلوہ خال و خط سے بھی آراستہ سہی
داماندگی ذوق تماشہ نہ چاہیئے
سب اہل دید بے خود و حیران و مست ہیں
کوئی اگر نہیں ہے تو پروا نہ چاہیئے
اصغرؔ صنم پرست سہی پھر کسی کو کیا
اہل حرم کو کاوش بے جا نہ چاہیئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.