نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے
دلچسپ معلومات
Film: Mirza Ghalib (1954)
نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
میں بلاتا تو ہوں اس کو مگر اے جذبۂ دل
اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے
کھیل سمجھا ہے کہیں چھوڑ نہ دے بھول نہ جائے
کاش یوں بھی ہو کہ بن میرے ستائے نہ بنے
غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ اگر
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے
اس نزاکت کا برا ہو وہ بھلے ہیں تو کیا
ہاتھ آویں تو انہیں ہاتھ لگائے نہ بنے
کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے
موت کی راہ نہ دیکھوں کہ بن آئے نہ رہے
تم کو چاہوں کہ نہ آؤ تو بلائے نہ بنے
بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اٹھائے نہ اٹھے
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
تشریح
یہ خوبصورت اور حسین شعر غالب کے مقبول اشعار میں سے ایک ہے۔ اس شعر کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس میں استعمال ہوئے الفاظ اور محاورے کے معنی پر غور کیا جائے۔ اس شعر میں جو پہلا لفظ استعمال ہوا ہے وہ ہے نکتہ چیں۔ نکتہ چیں کے معنی عیب نکالنے والا، کسی کے کام یا بات میں اعتراض کرنے والا، یا کسی کا दोष ڈھونڈنے والا، یا کسی کی کمیاں نکالنے والا، ہیں۔ اس شعر میں ایک محاورہ استعمال ہوا ہے 'بات بنانا' جس کے معنی ہیں بات کو سنبھالنا یا کام کو صحیح طرح سے پورا کرنا۔ شاعری کے بارے میں بارہا کہا جاتا ہے کہ شعر کے معنی کو تلاش کرنا ایسا ہی ہے جیسے دریا کی تہہ سے موتی برآمد کرنا اور یہ بات غالب کی شاعری کو پڑھتے ہوئے تو بار بار ذہن میں آتی ہے کہ جس آسانی سے غالب بہت گہری باتیں کہہ جاتے ہیں وہ بھی بہت بڑا فن ہے اور جن عام سی باتوں کو وہ اپنے خاص اسلوب یا خاص طور سے کہہ جاتے ہیں وہ ان باتوں کوuniversal issues بنا دیتے ہیں۔
اس شعر میں غالب اپنے محبوب کی خصوصیات یا صفات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرا محبوب بہت نکتہ چیں ہے، یعنی اس کی عادت یہ ہے کہ وہ criticize کرنے کا عادی ہے۔ اعتراض کرنا اس کی ادا ہے۔ اب بھلا ایسے محبوب کے سامنے میں دل کی باتیں، عشق کا اظہار، دل کا درد، وغیرہ کس طرح بیان کر سکتا ہوں!!
میرے محبوب کی عادت ہی نکتہ چینی کرنے یا اعتراض کرنے کی ہے۔ وہ میرے ان سنجیدہ جذبات کو کب سمجھے گا اور کس طرح سمجھے گا۔ وہ تو میرے اس موضوع کو بھی اعتراض کی نظر سے دیکھے گا اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ میں خود دل کی بات اس کو بتا کر پشیماں یاں شرمندہ ہو جاؤں گا۔ دوسرے مصرعے میں خود ہی غور کرتے ہوئے نظر آ تے ہیں کہ آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے !ایک طرف محبوب کا حال یہ ہے کہ وہ ہر بات پر اعتراض کرنے اورआलोचना کرنے کا عادی ہے تو دوسری طرف انہیں اس کا اظہار بھی کرنا ہے تو ایسی کیا صورت ہو کہ وہ اس کا اظہار بھی کر دیں اور ان کا محبوب اعتراض بھی نہ کرے۔ آخر اس بات کا کوئی حل تو نکل آئے۔ یعنی بات بھی بن جائے۔ کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے کہہ کر غالب نے اپنی اس ذہنی پریشانی اور الجھن کا ذکر کیا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ اپنا مدعا اپنے محبوب کے سامنے بیان کرتے ہوئے ہزار الجھنوں اور پریشانیوں کا سامنا کرتے ہیں۔ ایک بات اور بہت غور کرنے کی ہے کہ غالب نے اپنے محبوب کی جس صفت کا ذکر اس شعر میں کیا ہے وہ بھی ایک خاص انداز ہے اپنے محبوب کی نکتہ چینی یا لا ابالی پن کو بیان کرنے کا۔ یعنی ایک طرف تو دل کے معاملات ایسے ہیں کہ جو اظہار پر مجبور کر رہے ہیں اور دوسری طرف ان کا محبوب سننے ہی کو راضی نہیں ہے۔
سہیل آزاد
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.