ہے بسکہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
ہے بسکہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
کرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گماں اور
یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
ابرو سے ہے کیا اس نگہ ناز کو پیوند
ہے تیر مقرر مگر اس کی ہے کماں اور
تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم جب اٹھیں گے
لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور
ہر چند سبک دست ہوئے بت شکنی میں
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگ گراں اور
ہے خون جگر جوش میں دل کھول کے روتا
ہوتے جو کئی دیدۂ خوں نابہ فشاں اور
مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سر اڑ جائے
جلاد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ ہاں اور
لوگوں کو ہے خورشید جہاں تاب کا دھوکا
ہر روز دکھاتا ہوں میں اک داغ نہاں اور
لیتا نہ اگر دل تمہیں دیتا کوئی دم چین
کرتا جو نہ مرتا کوئی دن آہ و فغاں اور
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.