شب وہی لیکن ستارہ اور ہے
شب وہی لیکن ستارہ اور ہے
اب سفر کا استعارہ اور ہے
ایک مٹھی ریت میں کیسے رہے
اس سمندر کا کنارہ اور ہے
موج کے مڑنے میں کتنی دیر ہے
ناؤ ڈالی اور دھارا اور ہے
جنگ کا ہتھیار طے کچھ اور تھا
تیر سینے میں اتارا اور ہے
متن میں تو جرم ثابت ہے مگر
حاشیہ سارے کا سارا اور ہے
ساتھ تو میرا زمیں دیتی مگر
آسماں کا ہی اشارہ اور ہے
دھوپ میں دیوار ہی کام آئے گی
تیز بارش کا سہارا اور ہے
ہارنے میں اک انا کی بات تھی
جیت جانے میں خسارا اور ہے
سکھ کے موسم انگلیوں پر گن لیے
فصل غم کا گوشوارہ اور ہے
دیر سے پلکیں نہیں جھپکیں مری
پیش جاں اب کے نظارہ اور ہے
اور کچھ پل اس کا رستہ دیکھ لوں
آسماں پر ایک تارہ اور ہے
حد چراغوں کی یہاں سے ختم ہے
آج سے رستہ ہمارا اور ہے
- کتاب : kulliyaat-e-maahe tamaam(sadbarg) (Pg. 235)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.