سنگ دل ہوں اس قدر آنکھیں بھگو سکتا نہیں
سنگ دل ہوں اس قدر آنکھیں بھگو سکتا نہیں
میں کہ پتھریلی زمیں میں پھول بو سکتا نہیں
لگ چکے ہیں دامنوں پر جتنے رسوائی کے داغ
ان کو آنسو کیا سمندر تک بھی دھو سکتا نہیں
ایک دو دکھ ہوں تو پھر ان سے کروں جی بھر کے پیار
سب کو سینے سے لگا لوں یہ تو ہو سکتا نہیں
تیری بربادی پہ اب آنسو بہاؤں کس لیے
میں تو خود اپنی تباہی پر بھی رو سکتا نہیں
جس نے سمجھا ہو ہمیشہ دوستی کو کاروبار
دوستو وہ تو کسی کا دوست ہو سکتا نہیں
خواہشوں کی نذر کر دوں کس لیے انمول اشک
کچے دھاگوں میں کوئی موتی پرو سکتا نہیں
میں ترے در کا بھکاری تو مرے در کا فقیر
آدمی اس دور میں خوددار ہو سکتا نہیں
مجھ کو اتنا بھی نہیں ہے سرخ رو ہونے کا شوق
بے سبب تازہ لہو کی فصل بو سکتا نہیں
یاد کے شعلوں پہ جلتا ہے اگر میرا بدن
اوڑھ کر پھولوں کی چادر تو بھی سو سکتا نہیں
ہاتھ جس سے کچھ نہ آئے اس کی خواہش کیوں کروں
دودھ کی مانند میں پانی بلو سکتا نہیں
- کتاب : kulliyat-e-iqbaal saajid (Pg. 251)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.