سبھی کھڑے تھے شریک زمانہ ہوتے ہوئے
سبھی کھڑے تھے شریک زمانہ ہوتے ہوئے
کسی نے روکا نہ گھر سے روانہ ہوتے ہوئے
چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے
اچانک ایک ستارہ فلک سے ٹوٹ گیا
مرے بھی شامل بزم شبانہ ہوتے ہوئے
مرا ہمیشہ ان الفاظ پر یقین رہا
جو منکشف ہوئے لب سے ادا نہ ہوتے ہوئے
اسی طرح کے ہیں جتنے بھی دکھ ہمارے ہیں
سروں پہ چھاؤں نہیں شامیانہ ہوتے ہوئے
مرا بھی نام ہے فہرست مجرماں میں لکھا
میں دیکھتا رہا خالی خزانہ ہوتے ہوئے
پرند لوٹ کے آنے ہی پر نہیں راضی
کوئی تو بات ہے جو آشیانہ ہوتے ہوئے
عجب وہ لوگ تھے آزار بھی عجب ان کے
زمین چھوڑ گئے آب و دانہ ہوتے ہوئے
یہاں تو خستگیٔ بام و در پہ چپ ہیں سبھی
کوئی تڑپتا ہے بیرون خانہ ہوتے ہوئے
مرا کمال کہ میں اس فضا میں زندہ ہوں
دعا نہ ملتے ہوئے اور ہوا نہ ہوتے ہوئے
حریف تھا مرے دشمن کا وہ مگر میں نے
جمالؔ کی نہیں بیعت بہانہ ہوتے ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.