صاف کب امتحان لیتے ہیں
صاف کب امتحان لیتے ہیں
وہ تو دم دے کے جان لیتے ہیں
یوں ہے منظور خانہ ویرانی
مول میرا مکان لیتے ہیں
تم تغافل کرو رقیبوں سے
جاننے والے جان لیتے ہیں
پھر نہ آنا اگر کوئی بھیجے
نامہ بر سے زبان لیتے ہیں
اب بھی گر پڑ کے ضعف سے نالے
ساتواں آسمان لیتے ہیں
تیرے خنجر سے بھی تو اے قاتل
نوک کی نوجوان لیتے ہیں
اپنے بسمل کا سر ہے زانو پر
کس محبت سے جان لیتے ہیں
یہ سنا ہے مرے لیے تلوار
اک مرے مہربان لیتے ہیں
یہ نہ کہہ ہم سے تیرے منہ میں خاک
اس میں تیری زبان لیتے ہیں
کون جاتا ہے اس گلی میں جسے
دور سے پاسبان لیتے ہیں
منزل شوق طے نہیں ہوتی
ٹھیکیاں ناتوان لیتے ہیں
کر گزرتے ہیں ہو بری کہ بھلی
دل میں جو کچھ وہ ٹھان لیتے ہیں
وہ جھگڑتے ہیں جب رقیبوں سے
بیچ میں مجھ کو سان لیتے ہیں
ضد ہر اک بات پر نہیں اچھی
دوست کی دوست مان لیتے ہیں
مستعد ہو کے یہ کہو تو سہی
آئیے امتحان لیتے ہیں
داغؔ بھی ہے عجیب سحر بیاں
بات جس کی وہ مان لیتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.