رخصت رقص بھی ہے پاؤں میں زنجیر بھی ہے
رخصت رقص بھی ہے پاؤں میں زنجیر بھی ہے
سر منظر مگر اک بولتی تصویر بھی ہے
میرے شانوں پہ فرشتوں کا بھی ہے بار گراں
اور مرے سامنے اک ملبے کی تعمیر بھی ہے
زائچہ اپنا جو دیکھا ہے تو سر یاد آیا
جیسے ان ہاتھوں پہ کندہ کوئی تقدیر بھی ہے
خواہشیں خون میں اتری ہیں صحیفوں کی طرح
ان کتابوں میں ترے ہاتھ کی تحریر بھی ہے
جس سے ملنا تھا مقدر وہ دوبارہ نہ ملا
اور امکاں نہ تھا جس کا وہ عناں گیر بھی ہے
سر دیوار نوشتے بھی کئی دیکھتا ہوں
پس دیوار مگر حسرت تعمیر بھی ہے
میں یہ سمجھا تھا سلگتا ہوں فقط میں ہی یہاں
اب جو دیکھا تو یہ احساس ہمہ گیر بھی ہے
یوں نہ دیکھو کہ زمانہ متوجہ ہو جائے
کہ اس انداز نظر میں مری تشہیر بھی ہے
میں نے جو خواب ابھی دیکھا نہیں ہے اخترؔ
میرا ہر خواب اسی خواب کی تعبیر بھی ہے
- کتاب : Monthly Usloob (Pg. 364)
- Author : Mushfiq Khawaja
- مطبع : Usloob 3D 9—26 Nazimabad karachi 180007 (Oct. õ Nov. 1983,Issue No. 5-6)
- اشاعت : Oct. õ Nov. 1983,Issue No. 5-6
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.