داغ دنیا نے دیے زخم زمانے سے ملے
داغ دنیا نے دیے زخم زمانے سے ملے
ہم کو تحفے یہ تمہیں دوست بنانے سے ملے
ہم ترستے ہی ترستے ہی ترستے ہی رہے
وہ فلانے سے فلانے سے فلانے سے ملے
خود سے مل جاتے تو چاہت کا بھرم رہ جاتا
کیا ملے آپ جو لوگوں کے ملانے سے ملے
ماں کی آغوش میں کل موت کی آغوش میں آج
ہم کو دنیا میں یہ دو وقت سہانے سے ملے
کبھی لکھوانے گئے خط کبھی پڑھوانے گئے
ہم حسینوں سے اسی حیلے بہانے سے ملے
اک نیا زخم ملا ایک نئی عمر ملی
جب کسی شہر میں کچھ یار پرانے سے ملے
ایک ہم ہی نہیں پھرتے ہیں لیے قصۂ غم
ان کے خاموش لبوں پر بھی فسانے سے ملے
کیسے مانیں کہ انہیں بھول گیا تو اے کیفؔ
ان کے خط آج ہمیں تیرے سرہانے سے ملے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.