پوچھے جو نشاں کوئی انجان نکلتے ہیں
پوچھے جو نشاں کوئی انجان نکلتے ہیں
ہم راہ گزاروں سے بے دھیان نکلتے ہیں
دل تازہ مراسم کے آغاز سے ڈرتا ہے
ملنے سے بچھڑنے کے امکان نکلتے ہیں
کس سمت کو جاتے ہیں اے راہ چمن آخر
لشکر گل و نکہت کے ہر آن نکلتے ہیں
گھر رہیے کہ باہر ہے اک رقص بلاؤں کا
اس موسم وحشت میں نادان نکلتے ہیں
تم عشق کے کوچے میں جاں نذر تو کر دیکھو
مرنے سے بھی جینے کے عنوان نکلتے ہیں
اس سایۂ مژگاں میں کچھ وقت گزارا ہے
ہم پر بھی ان آنکھوں کے احسان نکلتے ہیں
ہستی کی یہ زنجیریں یہ جسم کی دیواریں
ہم ساتھ لیے اپنا زندان نکلتے ہیں
ہم دیکھتے رہتے ہیں اس پیاس کے صحرا سے
کیا قافلۂ ابر و باران نکلتے ہیں
گل شاخوں پہ آتے ہیں کس عالم افسوں سے
کسی غیب کی وادی سے انسان نکلتے ہیں
یہ عالم ہستی ہے یا خواب کی بستی ہے
جس سمت چلے جائیں حیران نکلتے ہیں
بنیاد تعلق ہے اک وہم شناسائی
سوچو تو سبھی چہرے انجان نکلتے ہیں
کس وقت نہیں رہتی آنکھوں میں وہ موج خوں
کب دل سے ترے غم کے پیکان نکلتے ہیں
جس حرف کے لکھنے میں ہو دل کا لہو شامل
اس حرف سے فردا کے رجحان نکلتے ہیں
ہے حرف سخن اپنا بس اپنی ہی خلوت میں
بازار میں یاروں کے دیوان نکلتے ہیں
دنیا کی محبت کا سودا نہ کبھی کرنا
اس سودے کے آخر میں نقصان نکلتے ہیں
لو صبح عدم آئی اب ہجر کی ساعت ہے
شب بھر کی سرائے سے مہمان نکلتے ہیں
- کتاب : Kitab-e-Rafta (Pg. 137)
- Author : Firasat Rizvi
- مطبع : Academy Bazyaft, Karachi Pakistan Lahore (2007)
- اشاعت : 2007
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.