پاؤں رکتے ہی نہیں ذہن ٹھہرتا ہی نہیں
پاؤں رکتے ہی نہیں ذہن ٹھہرتا ہی نہیں
کوئی نشہ ہے تھکن کا کہ اترتا ہی نہیں
دن گزرتے ہیں گزرتے ہی چلے جاتے ہیں
ایک لمحہ جو کسی طرح گزرتا ہی نہیں
بھاری دروازۂ آہن کہ نہیں کھل پاتا
میرے سینے میں یہ سناٹا اترتا ہی نہیں
دست جاں سے میں اٹھا لوں اسے پی لوں لیکن
دل وہ زہراب پیالہ ہے کہ بھرتا ہی نہیں
کیا لیے پھرتا ہوں میں آب سراب آنکھوں میں
ڈوبتا ہی نہیں کوئی کہ ابھرتا ہی نہیں
یہ پگھلتی ہی نہیں شمع کہ جلتی ہی نہیں
یہ بکھرتا ہی نہیں دشت کہ مرتا ہی نہیں
کچھ نہ کہیے تو بھلا یوں ہی سمجھتے رہیے
پوچھ لیجے تو وہ عیبوں سے مکرتا ہی نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.