جب تک نگار دشت کا سینہ دکھا نہ تھا
جب تک نگار دشت کا سینہ دکھا نہ تھا
صحرا میں کوئی لالۂ صحرا کھلا نہ تھا
دو جھیلیں اس کی آنکھوں میں لہرا کے سو گئیں
اس وقت میری عمر کا دریا چڑھا نہ تھا
جاگی نہ تھیں نسوں میں تمنا کی ناگنیں
اس گندمی شراب کو جب تک چکھا نہ تھا
ڈھونڈا کرو جہان تحیر میں عمر بھر
وہ چلتی پھرتی چھاؤں ہے میں نے کہا نہ تھا
اک بے وفا کے سامنے آنسو بہاتے ہم
اتنا ہماری آنکھ کا پانی مرا نہ تھا
وہ کالے ہونٹ جام سمجھ کر چڑھا گئے
وہ آب جس سے میں نے وضو تک کیا نہ تھا
سب لوگ اپنے اپنے خداؤں کو لائے تھے
اک ہم ہی ایسے تھے کہ ہمارا خدا نہ تھا
وہ کالی آنکھیں شہر میں مشہور تھیں بہت
تب ان پہ موٹے شیشوں کا چشمہ چڑھا نہ تھا
میں صاحب غزل تھا حسینوں کی بزم میں
سر پر گھنیرے بال تھے ماتھا کھلا نہ تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.