نہ سہی کچھ مگر اتنا تو کیا کرتے تھے
نہ سہی کچھ مگر اتنا تو کیا کرتے تھے
وہ مجھے دیکھ کے پہچان لیا کرتے تھے
آخر کار ہوئے تیری رضا کے پابند
ہم کہ ہر بات پہ اصرار کیا کرتے تھے
خاک ہیں اب تری گلیوں کی وہ عزت والے
جو ترے شہر کا پانی نہ پیا کرتے تھے
اب تو انسان کی عظمت بھی کوئی چیز نہیں
لوگ پتھر کو خدا مان لیا کرتے تھے
دوستو اب مجھے گردن زدنی کہتے ہو
تم وہی ہو کہ مرے زخم سیا کرتے تھے
ہم جو دستک کبھی دیتے تھے صبا کی مانند
آپ دروازۂ دل کھول دیا کرتے تھے
اب تو شہزادؔ ستاروں پہ لگی ہیں نظریں
کبھی ہم لوگ بھی مٹی میں جیا کرتے تھے
- کتاب : Deewar pe dastak (Pg. 498)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.