نہ منزلیں تھیں نہ کچھ دل میں تھا نہ سر میں تھا
نہ منزلیں تھیں نہ کچھ دل میں تھا نہ سر میں تھا
راجیندر منچندا بانی
MORE BYراجیندر منچندا بانی
نہ منزلیں تھیں نہ کچھ دل میں تھا نہ سر میں تھا
عجب نظارۂ لا سمتیت نظر میں تھا
عتاب تھا کسی لمحے کا اک زمانے پر
کسی کو چین نہ باہر تھا اور نہ گھر میں تھا
چھپا کے لے گیا دنیا سے اپنے دل کے گھاؤ
کہ ایک شخص بہت طاق اس ہنر میں تھا
کسی کے لوٹنے کی جب صدا سنی تو کھلا
کہ میرے ساتھ کوئی اور بھی سفر میں تھا
کبھی میں آب کے تعمیر کردہ قصر میں ہوں
کبھی ہوا میں بنائے ہوئے سے گھر میں تھا
جھجک رہا تھا وہ کہنے سے کوئی بات ایسی
میں چپ کھڑا تھا کہ سب کچھ مری نظر میں تھا
یہی سمجھ کے اسے خود صدا نہ دی میں نے
وہ تیز گام کسی دور کے سفر میں تھا
کبھی ہوں تیری خموشی کے کٹتے ساحل پر
کبھی میں لوٹتی آواز کے بھنور میں تھا
ہماری آنکھ میں آ کر بنا اک اشک وہ رنگ
جو برگ سبز کے اندر نہ شاخ تر میں تھا
کوئی بھی گھر میں سمجھتا نہ تھا مرے دکھ سکھ
ایک اجنبی کی طرح میں خود اپنے گھر میں تھا
ابھی نہ برسے تھے بانیؔ گھرے ہوئے بادل
میں اڑتی خاک کی مانند رہ گزر میں تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.