مسافرت میں شب وغا تک پہنچ گئے ہیں
مسافرت میں شب وغا تک پہنچ گئے ہیں
یہ لوگ اپنی ابد سرا تک پہنچ گئے ہیں
اب اس سے اگلا سفر ہمارا لہو کرے گا
کہ ہم مدینے سے کربلا تک پہنچ گئے ہیں
اگر مبارز طلب نہیں تھے تو کس لیے ہم
چراغ لے کر در ہوا تک پہنچ گئے ہیں
گلابوں اور گردنوں سے اندازہ ہو رہا ہے
کہ ہم کسی موسم جزا تک پہنچ گئے ہیں
تری محبت میں گمرہی کا عجب نشہ تھا
کہ تجھ تک آتے ہوئے خدا تک پہنچ گئے ہیں
بتا رہی ہے یہ خشک پتوں کی تیز بارش
ہم اپنے موسم کی ابتدا تک پہنچ گئے ہیں
ہمیں بھی شنوائی کا یقیں ہو چلا ہے تابشؔ
کہ ہم بھی تحریک التوا تک پہنچ گئے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.