مجھے مہماں ہی جانو رات بھر کا
مجھے مہماں ہی جانو رات بھر کا
دیا ہوں دوستوں میں رہ گزر کا
سناؤں کیا کہ طولانی بہت ہے
فسانہ میری عمر مختصر کا
چلیں کہہ دو ہواؤں سے سنبھل کے
بھرا رکھا ہے ساغر چشم تر کا
چلے جو دھوپ میں منزل تھی ان کی
ہمیں تو کھا گیا سایہ شجر کا
ہٹائے کچھ تو پتھر ٹھوکروں نے
ہوا تو صاف کچھ رستہ سفر کا
جسے دنیا نے بس آنسو ہی جانا
فرستادہ تھا اک دل کے نگر کا
غموں میں کس کو میں ہنسنا سکھاؤں
ملے بھی قدرداں کوئی ہنر کا
یہاں تو فاتح عالم وہی ہے
بدلنا جس کو آ جائے نظر کا
نفاق باہمی ہے جو ابھی تک
کھڑا ہے راستہ روکے عمرؔ کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.