محبت ہے اذیت ہے ہجوم یاس و حسرت ہے
محبت ہے اذیت ہے ہجوم یاس و حسرت ہے
جوانی اور اتنی دکھ بھری کیسی قیامت ہے
وہ ماضی جو ہے اک مجموعہ اشکوں اور آہوں کا
نہ جانے مجھ کو اس ماضی سے کیوں اتنی محبت ہے
لب دریا مجھے لہروں سے یوں ہی چہل کرنے دو
کہ اب دل کو اسی اک شغل بے معنی میں راحت ہے
ترا افسانہ اے افسانہ خواں رنگیں سہی ممکن
مجھے روداد عشرت سن کے رو دینے کی عادت ہے
کوئی روئے تو میں بے وجہ خود بھی رونے لگتا ہوں
اب اخترؔ چاہے تم کچھ بھی کہو یہ میری فطرت ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.