ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے
ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے
مری جاں چاہنے والا بڑی مشکل سے ملتا ہے
کہیں ہے عید کی شادی کہیں ماتم ہے مقتل میں
کوئی قاتل سے ملتا ہے کوئی بسمل سے ملتا ہے
پس پردہ بھی لیلیٰ ہاتھ رکھ لیتی ہے آنکھوں پر
غبار ناتوان قیس جب محمل سے ملتا ہے
بھرے ہیں تجھ میں وہ لاکھوں ہنر اے مجمع خوبی
ملاقاتی ترا گویا بھری محفل سے ملتا ہے
مجھے آتا ہے کیا کیا رشک وقت ذبح اس سے بھی
گلا جس دم لپٹ کر خنجر قاتل سے ملتا ہے
بظاہر با ادب یوں حضرت ناصح سے ملتا ہوں
مرید خاص جیسے مرشد کامل سے ملتا ہے
مثال گنج قاروں اہل حاجت سے نہیں چھپتا
جو ہوتا ہے سخی خود ڈھونڈ کر سائل سے ملتا ہے
جواب اس بات کا اس شوخ کو کیا دے سکے کوئی
جو دل لے کر کہے کم بخت تو کس دل سے ملتا ہے
چھپائے سے کوئی چھپتی ہے اپنے دل کی بیتابی
کہ ہر تار نفس اپنا رگ بسمل سے ملتا ہے
عدم کی جو حقیقت ہے وہ پوچھو اہل ہستی سے
مسافر کو تو منزل کا پتا منزل سے ملتا ہے
غضب ہے داغؔ کے دل سے تمہارا دل نہیں ملتا
تمہارا چاند سا چہرہ مہ کامل سے ملتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.