کوئی محمل نشیں کیوں شاد یا ناشاد ہوتا ہے
کوئی محمل نشیں کیوں شاد یا ناشاد ہوتا ہے
غبار قیس خود اٹھتا ہے خود برباد ہوتا ہے
قفس کیا حلقہ ہائے دام کیا رنج اسیری کیا
چمن پر مٹ گیا جو ہر طرح آزاد ہوتا ہے
یہ سب نا آشنائے لذت پرواز ہیں شاید
اسیروں میں ابھی تک شکوۂ صیاد ہوتا ہے
بہار سبزہ و گل ہے کرم ہوتا ہے ساقی کا
جواں ہوتی ہے دنیا مے کدہ آباد ہوتا ہے
بنا لیتا ہے موج خون دل سے اک چمن اپنا
وہ پابند قفس جو فطرتا آزاد ہوتا ہے
بہار انجام سمجھوں اس چمن کا یا خزاں سمجھوں
زبان برگ گل سے مجھ کو کیا ارشاد ہوتا ہے
ازل میں اک تجلی سے ہوئی تھی بے خودی طاری
تمہیں کو میں نے دیکھا تھا کچھ ایسا یاد ہوتا ہے
سمائے جا رہے ہیں اب وہ جلوے دیدہ و دل میں
یہ نظارہ ہے یا ذوق نظر برباد ہوتا ہے
زمانہ ہے کہ خوگر ہو رہا ہے شور و شیون کا
یہاں وہ درد جو بے نالہ و فریاد ہوتا ہے
یہاں کوتاہی ذوق عمل ہے خود گرفتاری
جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیاد ہوتا ہے
یہاں مستوں کے سر الزام ہستی ہی نہیں اصغرؔ
پھر اس کے بعد ہر الزام بے بنیاد ہوتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.