کیا تعجب کہ مری روح رواں تک پہنچے
کیا تعجب کہ مری روح رواں تک پہنچے
پہلے کوئی مرے نغموں کی زباں تک پہنچے
جب ہر اک شورش غم ضبط فغاں تک پہنچے
پھر خدا جانے یہ ہنگامہ کہاں تک پہنچے
آنکھ تک دل سے نہ آئے نہ زباں تک پہنچے
بات جس کی ہے اسی آفت جاں تک پہنچے
تو جہاں پر تھا بہت پہلے وہیں آج بھی ہے
دیکھ رندان خوش انفاس کہاں تک پہنچے
جو زمانے کو برا کہتے ہیں خود ہیں وہ برے
کاش یہ بات ترے گوش گراں تک پہنچے
بڑھ کے رندوں نے قدم حضرت واعظ کے لیے
گرتے پڑتے جو در پیر مغاں تک پہنچے
تو مرے حال پریشاں پہ بہت طنز نہ کر
اپنے گیسو بھی ذرا دیکھ کہاں تک پہنچے
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
عشق کی چوٹ دکھانے میں کہیں آتی ہے
کچھ اشارے تھے کہ جو لفظ و بیاں تک پہنچے
جلوے بیتاب تھے جو پردۂ فطرت میں جگرؔ
خود تڑپ کر مری چشم نگراں تک پہنچے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.