کس فکر کس خیال میں کھویا ہوا سا ہے
دل آج تیری یاد کو بھولا ہوا سا ہے
گلشن میں اس طرح سے کب آئی تھی فصل گل
ہر پھول اپنی شاخ سے ٹوٹا ہوا سا ہے
چل چل کے تھک گیا ہے کہ منزل نہیں کوئی
کیوں وقت ایک موڑ پہ ٹھہرا ہوا سا ہے
کیا حادثہ ہوا ہے جہاں میں کہ آج پھر
چہرہ ہر ایک شخص کا اترا ہوا سا ہے
نذرانہ تیرے حسن کو کیا دیں کہ اپنے پاس
لے دے کے ایک دل ہے سو ٹوٹا ہوا سا ہے
پہلے تھے جو بھی آج مگر کاروبار عشق
دنیا کے کاروبار سے ملتا ہوا سا ہے
لگتا ہے اس کی باتوں سے یہ شہریارؔ بھی
یاروں کے التفات کا مارا ہوا سا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.