خزاںؔ میں خوبیاں ایسے بہت ہیں
خزاںؔ میں خوبیاں ایسے بہت ہیں
خرابی ایک ہے بنتے بہت ہیں
کوئی رستہ کہیں جائے تو جانیں
بدلنے کے لیے رستے بہت ہیں
نئی دنیا کے سندر بن کے اندر
پرانے وقت کے پودے بہت ہیں
ہوئے جب سے زمانے بھر کے ہمراہ
ہم اپنے ساتھ بھی تھوڑے بہت ہیں
لگاوٹ ہے ستاروں سے پرانی
رقابت ہے مگر ملتے بہت ہیں
بہت ہوگا تو یہ سوچو گے شاید
کہ ہم بھی تھے یہاں جیسے بہت ہیں
ہے سب صورت کا چکر، خواب معنی
دکھائے ہیں بہت دیکھے بہت ہیں
جسارت دل میں کیا ہو فن میں کیا ہو
ملازم پیشہ ہیں ڈرتے بہت ہیں
کسی سے کیوں الجھتے کیا الجھتے
یہ دھاگے خود بہ خود الجھے بہت ہیں
تھکن چاروں طرف ہے چلتے جاؤ
پہنچتا کون ہے چلتے بہت ہیں
خفا ہم سے نہ ہو اے چشم جاناں
ہم اس انداز پر مرتے بہت ہیں
کہو یہ بھی خزاںؔ کہنے سے پہلے
جو کہتے کچھ نہیں کہتے بہت ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.