خموشی بس خموشی تھی اجازت اب ہوئی ہے
خموشی بس خموشی تھی اجازت اب ہوئی ہے
اشاروں کو ترے پڑھنے کی جرأت اب ہوئی ہے
عجب لہجے میں کرتے تھے در و دیوار باتیں
مرے گھر کو بھی شاید میری عادت اب ہوئی ہے
گماں ہوں یا حقیقت سوچنے کا وقت کب تک
یہ ہو کر بھی نہ ہونے کی مصیبت اب ہوئی ہے
اچانک ہڑبڑا کر نیند سے میں جاگ اٹھا ہوں
پرانا واقعہ ہے جس پہ حیرت اب ہوئی ہے
یہی کمرہ تھا جس میں چین سے ہم جی رہے تھے
یہ تنہائی تو اتنی بے مروت اب ہوئی ہے
بچھڑنا ہے ہمیں اک دن یہ دونوں جانتے تھے
فقط ہم کو جدا ہونے کی فرصت اب ہوئی ہے
عجب تھا مسئلہ اپنا عجب شرمندگی تھی
خفا جس رات پر تھے وہ شرارت اب ہوئی ہے
محبت کو تری کب سے لیے بیٹھے تھے دل میں
مگر اس بات کو کہنے کی ہمت اب ہوئی ہے
- کتاب : کھڑکی تو میں نے کھول ہی لی (Pg. 71)
- Author :شارق کیفی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : 3rd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.