خلق نے چھین لی مجھ سے مری تنہائی تک
خلق نے چھین لی مجھ سے مری تنہائی تک
عشق آ پہنچا ہے الزام سے رسوائی تک
کھول رکھا ہے یہ دروازۂ دل تیرے لیے
کاش تو دیکھ سکے روح کی گہرائی تک
کیوں ہوں میں اور مرے غم کا اسے احساس کہاں
ہے ملاقات فقط انجمن آرائی تک
یوں تو ہم اہل نظر ہیں مگر انجام یہ ہے
ڈھونڈتے ڈھونڈتے کھو دیتے ہیں بینائی تک
کھل گئے وہ تو کھلا اپنی محبت کا بھرم
ولولے دل میں ہزاروں تھے شناسائی تک
ڈوبنا اپنا مقدر تھا مگر ظلم ہے یہ
بہہ گئے ایک ہی ریلے میں تماشائی تک
خشک مٹی پہ بھی گرتا نہیں پتا کوئی
خامشی وہ ہے کہ چلتی نہیں پروائی تک
شہر میں اہل جفا اہل ریا رہتے ہیں
یہ ہوا کاش نہ پہنچے ترے سودائی تک
اپنے انجام پہ خود روئے گی شمع محفل
چھوڑ جائیں گے اسے اس کے تمنائی تک
ہم نے بھی دشت نوردی تو بہت کی شہزادؔ
ہاتھ پہنچا نہ کسی لالۂ صحرائی تک
- کتاب : Deewar pe dastak (Pg. 351)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.