کشیدہ سر سے توقع عبث جھکاؤ کی تھی
کشیدہ سر سے توقع عبث جھکاؤ کی تھی
بگڑ گیا ہوں کہ صورت یہی بناؤ کی تھی
وہ جس گھمنڈ سے بچھڑا گلہ تو اس کا ہے
کہ ساری بات محبت میں رکھ رکھاؤ کی تھی
وہ مجھ سے پیار نہ کرتا تو اور کیا کرتا
کہ دشمنی میں بھی شدت اسی لگاؤ کی تھی
مگر یہ درد طلب بھی سراب ہی نکلا
وفا کی لہر بھی جذبات کے بہاؤ کی تھی
اکیلے پار اتر کر یہ ناخدا نے کہا
مسافرو یہی قسمت شکستہ ناؤ کی تھی
چراغ جاں کو کہاں تک بچا کے ہم رکھتے
ہوا بھی تیز تھی منزل بھی چل چلاؤ کی تھی
میں زندگی سے نبرد آزما رہا ہوں فرازؔ
میں جانتا تھا یہی راہ اک بچاؤ کی تھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.