کمی نہ کی ترے وحشی نے خاک اڑانے میں
کمی نہ کی ترے وحشی نے خاک اڑانے میں
جنوں کا نام اچھلتا رہا زمانے میں
فراقؔ دوڑ گئی روح سی زمانے میں
کہاں کا درد بھرا تھا مرے فسانے میں
جنوں سے بھول ہوئی دل پہ چوٹ کھانے میں
فراقؔ دیر ابھی تھی بہار آنے میں
وہ کوئی رنگ ہے جو اڑ نہ جائے اے گل تر
وہ کوئی بو ہے جو رسوا نہ ہو زمانے میں
وہ آستیں ہے کوئی جو لہو نہ دے نکلے
وہ کوئی حسن ہے جھجکے جو رنگ لانے میں
یہ گل کھلے ہیں کہ چوٹیں جگر کی ابھری ہیں
نہاں بہار تھی بلبل ترے ترانے میں
بیان شمع ہے حاصل یہی ہے جلنے کا
فنا کی کیفیتیں دیکھ جھلملانے میں
کسی کی حالت دل سن کے اٹھ گئیں آنکھیں
کہ جان پڑ گئی حسرت بھرے فسانے میں
اسی کی شرح ہے یہ اٹھتے درد کا عالم
جو داستاں تھی نہاں تیرے آنکھ اٹھانے میں
غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست
وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں
ہمیں ہیں گل ہمیں بلبل ہمیں ہوائے چمن
فراقؔ خواب یہ دیکھا ہے قید خانے میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.