کہیں ساقی کا فیض عام بھی ہے
کہیں ساقی کا فیض عام بھی ہے
کسی شیشے پہ میرا نام بھی ہے
وہ چشم مست مئے بھی جام بھی ہے
پھرے تو گردش ایام بھی ہے
نوائے چنگ و بربط سننے والو
پس پردہ بڑا کہرام بھی ہے
مری فرد جنوں پہ اے بہارو
گواہوں میں خزاں کا نام بھی ہے
نہ پوچھو بے بسی اس تشنہ لب کی
کہ جس کی دسترس میں جام بھی ہے
محبت کی سزا ترک محبت
محبت کا یہی انعام بھی ہے
نگاہ شوق ہے گستاخ لیکن
نگاہ شوق کچھ بدنام بھی ہے
نگاہوں کا تصادم کس نے دیکھا
مگر یہ راز طشت از بام بھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.