کہیں بھی سایہ نہیں کس طرف چلے کوئی
کہیں بھی سایہ نہیں کس طرف چلے کوئی
درخت کاٹ گیا ہے ہرے بھرے کوئی
عجیب رت ہے زباں ذائقے سے ہے محروم
تمام شہر ہی چپ ہو تو کیا کرے کوئی
ہمارے شہر میں ہے وہ گریز کا عالم
چراغ بھی نہ جلائے چراغ سے کوئی
یہ زندگی ہے سفر منجمد سمندر کا
وہیں پہ شق ہو زمیں جس جگہ رکے کوئی
پلٹ کر آ نہیں سکتے گئے ہوئے لمحے
تمام عمر بھی اب جاگتا رہے کوئی
مثال عکس مقید حصار ذات میں ہوں
وہ موج ہوں جسے رستہ نہ مل سکے کوئی
پھر اس کے بعد بکھر جاؤں ریت کی صورت
بس ایک بار مجھے ٹوٹ کر ملے کوئی
حضور حسن یہ دل کاسۂ گدائی ہے
ہوں وہ فقیر جسے بھیک بھی نہ دے کوئی
سوال اس نے بھی کوئی نہیں کیا شہزادؔ
جواب بن نہ پڑے جس کے سامنے کوئی
- کتاب : Deewar pe dastak (Pg. 913)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.