کہہ دو کوئی ساقی سے کہ ہم مرتے ہیں پیاسے
کہہ دو کوئی ساقی سے کہ ہم مرتے ہیں پیاسے
گر مے نہیں دے زہر ہی کا جام بلا سے
جو کچھ ہے سو ہے اس کے تغافل کی شکایت
قاصد سے ہے تکرار نہ جھگڑا ہے صبا سے
دلالہ نے امید دلائی تو ہے لیکن
دیتے نہیں کچھ دل کو تسلی یہ دلاسے
ہے وصل تو تقدیر کے ہاتھ اے شہ خوباں
یاں ہیں تو فقط تیری محبت کے ہیں پیاسے
پیاسے ترے سرگشتہ ہیں جو راہ طلب میں
ہونٹوں کو وہ کرتے نہیں تر آب بقا سے
در گزرے دوا سے تو بھروسے پہ دعا کے
در گزریں دعا سے بھی دعا ہے یہ خدا سے
اک درد ہو بس آٹھ پہر دل میں کہ جس کو
تخفیف دوا سے ہو نہ تسکین دعا سے
حالیؔ دل انساں میں ہے گم دولت کونین
شرمندہ ہوں کیوں غیر کے احسان و عطا سے
جب وقت پڑے دیجیے دستک در دل پر
جھکئے فقرا سے نہ جھمکیے امرا سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.