کبھی نہ خود کو بد اندیش دشت و در رکھا
کبھی نہ خود کو بد اندیش دشت و در رکھا
اتر کے چاہ میں پاتال کا سفر رکھا
یہی بہت تھے مجھے نان و آب و شمع و گل
سفر نژاد تھا اسباب مختصر رکھا
ہوائے شام دلآزار کو اسیر کیا
اور اس کو دشت میں پن چکیوں کے گھر رکھا
وہ ایک ریگ گزیدہ سی نہر چلنے لگی
جو میں نے چوم کے پیکاں کمان پر رکھا
وہ آئی اور وہیں طاقچوں میں پھول رکھے
جو میں نے نذر کے پتھر پہ جانور رکھا
جبیں کے زخم پہ مثقال خاک رکھی اور
اک الوداع کا شگوں اس کے ہاتھ پر رکھا
گرفت تیز رکھی رخش عمر پر میں نے
بجائے جنبش مہمیز نیشتر رکھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.