کاغذی حوصلوں سے خوف آیا
کاغذی حوصلوں سے خوف آیا
یا ہمیں بارشوں سے خوف آیا
دیکھ سکتے ہیں چھو نہیں سکتے
ہاتھ بھر فاصلوں سے خوف آیا
خار کانپے کہ پھول کیا نکلیں
پھول کو خوشبوؤں سے خوف آیا
ماں کے قدموں کو چومنے سے گئے
باپ کی مٹھیوں سے خوف آیا
رات جب تم سے مل کے آیا میں
آنے والے دنوں سے خوف آیا
ایک جرثومہ لے گیا بازی
کیا چڑیلوں جنوں سے خوف آیا
جوں ہی ماچس دکھائی سگریٹ کو
اپنی ہی انگلیوں سے خوف آیا
صبح خیزی سے صبح گھبرائی
رات کو رت جگوں سے خوف آیا
یہ کھچا کھچ بھری ہوئی وحشت
بے بسوں کو بسوں سے خوف آیا
پہلے ڈرتا رہا لکیروں سے
پھر مجھے دائروں سے خوف آیا
خالی تنہا اداس سڑکوں پر
گھومتے ٹائروں سے خوف آیا
پہلے جی چاہا میں یقیں کر لوں
پھر ترے شعبدوں سے خوف آیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.