جنوں کار فرما ہوا چاہتا ہے
جنوں کار فرما ہوا چاہتا ہے
قدم دشت پیما ہوا چاہتا ہے
دم گریہ کس کا تصور ہے دل میں
کہ اشک اشک دریا ہوا چاہتا ہے
خط آنے لگے شکوہ آمیز ان کے
ملاپ ان سے گویا ہوا چاہتا ہے
بہت کام لینے تھے جس دل سے ہم کو
وہ صرف تمنا ہوا چاہتا ہے
ابھی لینے پائے نہیں دم جہاں میں
اجل کا تقاضا ہوا چاہتا ہے
مجھے کل کے وعدے پہ کرتے ہیں رخصت
کوئی وعدہ پورا ہوا چاہتا ہے
فزوں تر ہے کچھ ان دنوں ذوق عصیاں
در رحمت اب وا ہوا چاہتا ہے
قلق گر یہی ہے تو راز نہانی
کوئی دن میں رسوا ہوا چاہتا ہے
وفا شرط الفت ہے لیکن کہاں تک؟
دل اپنا بھی تجھ سا ہوا چاہتا ہے
بہت حظ اٹھاتا ہے دل تجھ سے مل کر
قلق دیکھیے کیا ہوا چاہتا ہے
غم رشک کو تلخ سمجھے تھے ہمدم
سو وہ بھی گوارا ہوا چاہتا ہے
بہت چین سے دن گزرتے ہیں حالیؔ
کوئی فتنہ برپا ہوا چاہتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.