جو مجھ کو دیکھ کے کل رات رو پڑا تھا بہت
جو مجھ کو دیکھ کے کل رات رو پڑا تھا بہت
وہ میرا کچھ بھی نہ تھا پھر بھی آشنا تھا بہت
میں اب بھی رات گئے اس کی گونج سنتا ہوں
وہ حرف کم تھا بہت کم مگر صدا تھا بہت
زمیں کے سینے میں سورج کہاں سے اترے ہیں
فلک پہ دور کوئی بیٹھا سوچتا تھا بہت
مجھے جو دیکھا تو کاغذ کو پرزے پرزے کیا
وہ اپنی شکل کے خاکے بنا رہا تھا بہت
میں اپنے ہاتھ سے نکلا تو پھر کہیں نہ ملا
زمانہ میرے تعاقب میں بھی گیا تھا بہت
شکست و ریخت بدن کی اب اپنے بس میں نہیں
اسے بتاؤں کہ وہ رمز آشنا تھا بہت
بساط اس نے الٹ دی نہ جانے سوچ کے کیا
ابھی تو لوگوں میں جینے کا حوصلا تھا بہت
عجب شریک سفر تھا کہ جب پڑاؤ کیا
وہ میرے پاس نہ ٹھہرا مگر رکا تھا بہت
سحر کے چاک گریباں کو دیکھنے کے لیے
وہ شخص صبح تلک شب کو جاگتا تھا بہت
وہ کم سخن تھا مگر ایسا کم سخن بھی نہ تھا
کہ سچ ہی بولتا تھا جب بھی بولتا تھا بہت
ہوا کے لمس سے چہرے پہ پھول کھلتے تھے
وہ چاندنی سا بدن موجۂ صبا تھا بہت
پس دریچہ دو آنکھیں چمکتی رہتی تھیں
کہ اس کو نیند میں چلنے کا عارضہ تھا بہت
کہانیوں کی فضا بھی اسے تھی راس اخترؔ
حقیقتوں سے بھی عہدہ بر آ ہوا تھا بہت
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.