جو کہتا ہے کہ دریا دیکھ آیا
غلط موسم میں صحرا دیکھ آیا
ڈگر اور منزلیں تو ایک سی تھیں
وہ پھر مجھ سے جدا کیا دیکھ آیا
ہر اک منظر کے پس منظر تھے اتنے
بہت کچھ بے ارادہ دیکھ آیا
کسی کو خاک دے کر آ رہا ہوں
زمیں کا اصل چہرہ دیکھ آیا
رکا محفل میں اتنی دیر تک میں
اجالوں کا بڑھاپا دیکھ آیا
تسلی اب ہوئی کچھ دل کو میرے
تری گلیوں کو سونا دیکھ آیا
تماشائی میں جاں اٹکی ہوئی تھی
پلٹ کر پھر کنارہ دیکھ آیا
بہت گدلا تھا پانی اس ندی کا
مگر میں اپنا چہرہ دیکھ آیا
میں اس حیرت میں شامل ہوں تو کیسے
نہ جانے وہ کہاں کیا دیکھ آیا
وہ منظر دائمی اتنا حسیں تھا
کہ میں ہی کچھ زیادہ دیکھ آیا
- کتاب : کھڑکی تو میں نے کھول ہی لی (Pg. 63)
- Author :شارق کیفی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : 3rd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.