جو گزر دشمن ہے اس کا رہ گزر رکھا ہے نام
جو گزر دشمن ہے اس کا رہ گزر رکھا ہے نام
ذات سے اپنی نہ ہلنے کا سفر رکھا ہے نام
پڑ گیا ہے اک بھنور اس کو سمجھ بیٹھے ہیں گھر
لہر اٹھی ہے لہر کا دیوار و در رکھا ہے نام
نام جس کا بھی نکل جائے اسی پر ہے مدار
اس کا ہونا یا نہ ہونا کیا، مگر رکھا ہے نام
ہم یہاں خود آئے ہیں لایا نہیں کوئی ہمیں
اور خدا کا ہم نے اپنے نام پر رکھا ہے نام
چاک چاکی دیکھ کر پیراہن پہنائی کی
میں نے اپنے ہر نفس کا بخیہ گر رکھا ہے نام
میرا سینہ کوئی چھلنی بھی اگر کر دے تو کیا
میں نے تو اب اپنے سینے کا سپر رکھا ہے نام
دن ہوئے پر تو کہیں ہونا کسی بھی شکل میں
جاگ کر خوابوں نے تیرا رات بھر رکھا ہے نام
- کتاب : goya, (Pg. 133)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.