جو بھی انجام ہو آغاز کیے دیتے ہیں
جو بھی انجام ہو آغاز کیے دیتے ہیں
موسموں کو نظر انداز کیے دیتے ہیں
کچھ تو پہلے سے تھا رگ رگ میں شجاعت کا سرور
کچھ ہمیں آپ بھی جاں باز کیے دیتے ہیں
حد سے آگے جو پرندے نہیں اڑنے والے
حادثے ان کو بھی شہباز کیے دیتے ہیں
دشت و صحرا یہ سمندر یہ جزیرے یہ پہاڑ
منکشف ہم پہ کئی راز کیے دیتے ہیں
شب ظلمت نہ ہو غمگیں کہ جلا کر خود کو
نور سے تجھ کو سرافراز کیے دیتے ہیں
شہر جاں پر کئی برسوں سے مسلط ہے جمود
چھیڑ کر دل کو چلو ساز کیے دیتے ہیں
ہم کہ زندہ ہیں ابھی زلف غزل آ تجھ کو
پھر عطا نکہت شیراز کیے دیتے ہیں
کون آتا ہے عیادت کے لیے دیکھیں فراغؔ
اپنے جی کو ذرا ناساز کیے دیتے ہیں
- کتاب : Ghazal Ke Rang (Pg. 259)
- Author : Akram Naqqash, Sohil Akhtar
- مطبع : Aflaak Publications, Gulbarga (2014)
- اشاعت : 2014
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.