جوانی کے ترانے گا رہا ہوں
جوانی کے ترانے گا رہا ہوں
دبی چنگاریاں سلگا رہا ہوں
مری بزم وفا سے جانے والو
ٹھہر جاؤ کہ میں بھی آ رہا ہوں
بتوں کو قول دیتا ہوں وفا کا
قسم اپنے خدا کی کھا رہا ہوں
وفا کا لازمی تھا یہ نتیجہ
سزا اپنے کیے کی پا رہا ہوں
خدا لگتی کہو بت خانے والو
تمہارے ساتھ میں کیسا رہا ہوں
زہے وہ گوشۂ راحت کہ جس میں
ہجوم رنج لے کر جا رہا ہوں
چراغ خانۂ درویش ہوں میں
ادھر جلتا ادھر بجھتا رہا ہوں
نئے کعبے کی بنیادوں سے پوچھو
پرانے بت کدے کیوں ڈھا رہا ہوں
نہیں کانٹے بھی کیا اجڑے چمن میں
کوئی روکے مجھے میں جا رہا ہوں
ہوئی جاتی ہے کیوں بیتاب منزل
مسلسل چل رہا ہوں آ رہا ہوں
حفیظؔ اپنے پرائے بن رہے ہیں
کہ میں دل کو زباں پہ لا رہا ہوں
- کتاب : Kulliyat-e-Hafeez Jalandhari (Pg. 422)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.