جب یار نے اٹھا کر زلفوں کے بال باندھے
جب یار نے اٹھا کر زلفوں کے بال باندھے
تب میں نے اپنے دل میں لاکھوں خیال باندھے
دو دن میں ہم تو ریجھے اے وائے حال ان کا
گزرے ہیں جن کے دل کو یاں ماہ و سال باندھے
تار نگہ میں اس کے کیونکر پھنسے نہ یہ دل
آنکھوں نے جس کے لاکھوں وحشی غزال باندھے
جو کچھ ہے رنگ اس کا سو ہے نظر میں اپنی
گو جامہ زرد پہنے یا چیرہ لال باندھے
تیرے ہی سامنے کچھ بہکے ہے میرا نالہ
ورنہ نشانے ہم نے مارے ہیں بال باندھے
بوسہ کی تو ہے خواہش پر کہیے کیونکہ اس سے
جس کا مزاج لب پر حرف سوال باندھے
ماروگے کس کو جی سے کس پر کمر کسی ہے
پھرتے ہو کیوں پیارے تلوار ڈھال باندھے
دو چار شعر آگے اس کے پڑھے تو بولا
مضموں یہ تو نے اپنے کیا حسب حال باندھے
سوداؔ جو ان نے باندھا زلفوں میں دل سزا ہے
شعروں میں اس کے تو نے کیوں خط و خال باندھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.