ہوئی ہے عمر کہ خورشید سے نظر نہ ملی
ہوئی ہے عمر کہ خورشید سے نظر نہ ملی
ہمارے ہجر کی شب کو کہیں سحر نہ ملی
ملی تو ان سے مگر فرصت نظر نہ ملی
پھر اس کے بعد خود اپنی ہمیں خبر نہ ملی
ترے کرم سے زمانہ میں مجھ کو کیا نہ ملا
نہیں ملی تو بس اک تیری رہ گزر نہ ملی
کھلا یہ راز کہ ناپائیدار ہے دنیا
یہاں کسی سے کوئی بات معتبر نہ ملی
اسیر حلقۂ دام خیال ہے اب تک
وہ بد نصیب جسے تاب بال و پر نہ ملی
خدا کی ذات سے کچھ منحرف رہے وہ لوگ
کہ جن کو چشم ملی چشم حق نگر نہ ملی
کہاں کہاں ترے جلوے نہ آشکار ہوئے
کہاں کہاں ترے جلووں سے یہ نظر نہ ملی
ہر ایک رات کی ہوتی تو ہے سحر لیکن
ہماری رات کو عرصہ ہوا سحر نہ ملی
خدا کی شان ہے صائبؔ سب ایک ہیں لیکن
کسی بشر سے کہیں صورت بشر نہ ملی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.