ہوتا فن کار جدید اور نہ شاعر ہوتا
ہوتا فن کار جدید اور نہ شاعر ہوتا
لغو بے بحر خیالات کا مظہر ہوتا
اور بڑھ جاتی جو ابہام کی ندرت مجھ میں
عہد نو کے کسی فرقے کا پیمبر ہوتا
کچھ تو ملتا مجھے دشنام طرازی ہی سہی
خوب ہوتا جو میں دشمن کے برابر ہوتا
کاہے کو دشت میں چبھنے کے لیے رہ جاتا
پھول ہوتا کسی گلشن کا گل تر ہوتا
مجھ پہ بھی تیشۂ الفت کی عنایت ہوتی
کاش کے میں بھی کسی کوہ کا پتھر ہوتا
یوں تراشے ہیں صنم کفر کے اس دنیا نے
بت شکن ہوتا جو اس دور میں آذرؔ ہوتا
کھینچ دیتا میں زمانے پہ محبت کے نقوش
میرے قبضے میں اگر خامۂ شہ پر ہوتا
اپنی خلیق کا مفہوم سمجھ پاتا اگر
دائرہ ہوتا جہاں اور میں محور ہوتا
لوگ مجھ کو بھی شہید غم دوراں کہتے
نیزۂ وقت پہ گویا جو مرا سر ہوتا
دشت کی آب و ہوا نے دیا کانٹوں کا لباس
میں بہاروں میں جو پلتا گل احمر ہوتا
خون مزدور کا ملتا جو نہ تعمیروں میں
نہ حویلی نہ محل اور نہ کوئی گھر ہوتا
تشنہ لب کوئی بھی دنیا میں نہیں رہ پاتا
میری آنکھوں کے جو قبضے میں سمندر ہوتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.