حریف داستاں کرنا پڑا ہے
حریف داستاں کرنا پڑا ہے
زمیں کو آسماں کرنا پڑا ہے
نکل کر آ گئے ہیں جنگلوں میں
مکاں کو لا مکاں کرنا پڑا ہے
سوا نیزے پہ سورج آ گیا تھا
لہو کو سائباں کرنا پڑا ہے
بہت تاریک تھیں ہستی کی راہیں
بدن کو کہکشاں کرنا پڑا ہے
کسے معلوم لمس ان انگلیوں کا
ہوا کو راز داں کرنا پڑا ہے
وہ شاید کوئی سچی بات کہہ دے
اسے پھر بد گماں کرنا پڑا ہے
میں اپنے سارے پتے فاش کرتا
مگر ایسا کہاں کرنا پڑا ہے
سفر آساں نہیں حرف و قلم کا
ہمیں طے ہفت خواں کرنا پڑا ہے
تھا جس سے اختلاف رائے ممکن
اسی کو مہرباں کرنا پڑا ہے
صف اعدا میں اپنے بازوؤں کو
مجھے اخترؔ کماں کرنا پڑا ہے
- کتاب : TASTEER (Pg. 165)
- Author : Nasiir Ahmed Nasir
- مطبع : Room No.1, 1st Floor, Awaan Plaza, Shadmaan Market, Lahore (Issue No. 3 October/December. 1997)
- اشاعت : Issue No. 3 October/December. 1997
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.